Friday, December 15, 2017

Sahih Bukhari Jild-1 Part-2 (صحیح بخاری جلد اول حصہ دوم)





میرے بھائیو! اس کتاب کے مصنف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جن کا مکمل نام "ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی "ہے۔ آپ 13شوال المکرم 194ء میں ماوراء النہر کے مشہور شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدمحترم اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ الجعفی عظیم محدث اور ایک صالح بزرگ تھے۔  امام ابن حبان نے ان کو طبقہ رابعہ کے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔  نیز امام ذہبی نے تاریخ اسلام اور امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ان کا مفصل تذکرہ لکھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم حدیث کی عظیم خدمت کی اور امیر المؤمنین فی الحدیث کہلائے اور آپ ایسے محدث ہیں جو حافظ الحدیث بھی کہلاتے ہیں۔ نیز آپ کے اساتذہ و طلباء اور اس زمانے کے لوگ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہپر رشک کرتے تھے۔  اس زمانے میں امام احمد بن حنبل ، امام یحیٰ بن معین اور  امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہم کا فنِ حدیث
میں چرچا تھا مگر جب آسمانِ علمِ حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کا سورج طلوع ہوا تو تمام محدثین ستاروں کی طرح چھپتے چلے گئے۔  گو کہ امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ کا مجموعہ احادیث بھی روایاتِ صحیحہ پر مشتمل تھا مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو واضح کر کے احادیث مبارکہ کا مجموعہ جمع کیا کہ میں اس میں صرف ان احادیث مبارکہ کو روایت کروں گا جو کہ درجہ صحیح میں بلحاظ سند و متن داخل ہیں۔اور آپ  رحمۃ اللہ علیہ کے   مجموہ احادیث کو بہت پزیرائی ملی  ،جو  یقیناً اللہ عزوجل نے ان کے زہد و تقوی کی بنا پر عطا فرمائی۔ اس کے  بعد کئی محدثین نے اس بات کے التزام کے ساتھ احادیث مبارکہ کو جمع کیا کہ وہ اس میں  ان روایات کو جمع کریں گے جو موجودہ زمانے کے محدثین کے نزدیک صحیح کہلاتی ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری ، امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح مسلم، امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان اور امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن خزیمہ کا ذخیرہ اس التزام کے ساتھ جمع کیا کہ وہ ان مجموعات احادیث میں صرف وہ احادیث لائیں گے جو محدثین کے نزدیک صحیح کہلاتی ہیں۔ نیز امام بخاری کا قول موجود ہے کہ انہوں نے ساری روایاتِ صحیحہ کو جمع نہیں کر دیا بلکہ بہت سی روایات صحیح ہیں مگر انہوں نے صحیح بخاری میں جمع نہیں کیں۔ ایک قول کے مطابق ایک لاکھ سے زائد صحیح روایات آپ کو زبانی یاد تھیں ۔ اسی لیے آپ کو حافظ الحدیث کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
لیکن صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ کو اتنی پزیرائی نہیں ملی جتنی صحاح ستہ کے نام سے صحیح بخاری ، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ  مشہور ہوئیں۔
اہم نوٹ:  بہت سے لوگ جو کتب احادیث کو دوسری کتابوں میں درج کی  گئی احادیثِ مبارکہ   کا حوالہ چیک کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اس لئے کتاب لکھنے والے سے بد گمانی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ کتاب کے جلد نمبر یا صفحہ نمبر کے لحاظ سے حدیث کو تلاش  کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اس صفحہ نمبر یا اس جلد میں بھی بعد اوقات وہ حدیث مبارکہ نہیں ملتی ۔ لہذا یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کتاب میں تو فلاں حدیث موجود ہی نہیں ۔ لیکن اس میں بعد مصنف بھی غلطی کرتے ہیں اور تلاش کرنے والے اکثر حضرات تو شکار ہی اس غلطی کا ہوتے ہیں۔ وہ کیسے۔۔۔؟؟؟؟؟
دوستو مختلف کتب چھاپنے والی کمپنیاں مختلف مترجموں کے علیحدہ علیحدہ ترجمے شائع کرتی ہیں۔ مگر ان میں کسی کا فونٹ سائز چھوٹا تو کسی میں بڑا، پھر صفحے کے سائز اور لائنوں کی تعداد، نیز یہ کہ عربی ، اردو دونوں کتاب میں موجود ہیں کہ صرف ترجمہ تو اس وجہ سے حوالے  کے صفحہ نمبر اور جلد نمبر میں  بعض اوقات فرق آجاتا ہے۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو کس طرح چیک کیا جائے
مصنف حضرات سے درخواست:
1.     مصنف حضرات کو چاہئے کہ کتاب میں احادیث مبارکہ کے جتنے بھی حوالہ جات  درج کئے جائیں۔ وہ سب ایک ہی کمپنی کی چھپی ہوئی کتاب سے نقل کیے جائیں۔  چاہے عربی سے، اردو سے یا عربی اردو سے لئے جائیں۔
2.     جو بھی حدیث مبارکہ کسی کتاب میں درج کی جائے ، اس کا مکمل حوالہ دیا جائے ۔
جیسے مجموعہ حدیث کا نام، متعلقہ باب کس کتاب میں ہے، باب کا نام، پھر حدیث نمبر، مزید بہتر ہے کہ بعد میں صفحہ نمبر اور جلد نمبر بھی دیا جائے
مثلاً نیت پر مشتمل صحیح بخاری کی پہلی حدیث مبارکہ کا حوالہ درج کر رہا ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب الوحی ، باب1: کیف کان بدءالوحی الی رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔، رقم الحدیث:1،  1/101، فرید بک سٹال، لاہور)
3.     کتاب کے آخر میں فہرست بنائی جائے کہ کس کس کمپنی کی شائع کی گئی کس کس کتاب سے حوالہ لیا گیا ہے۔

کتاب پڑھنے والوں   کے لئے ضروری ہدایات:
1.     پہلے کتاب کا نام تلاش کیجیے، پھر متعلقہ ابواب کس کتاب میں ہیں، پھر باب کا نمبر اور نام، پھر حدیث نمبر، پھر صفحہ اور جلد نمبر اگر دیا گیا ہو اور پھر کتاب کی ناشر کمپنی یا ادارے کا نام
مثلاً (صحیح بخاری، کتاب الوحی ، باب1: کیف کان بدءالوحی الی رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔، رقم الحدیث:1،  1/101، فرید بک سٹال، لاہور)
2.     جگہ کی کمی کے باعث کچھ مصنف ناشر کا نام کتاب کے آخر میں ماخذ و مراجع کی صورت میں دے دیتے ہیں۔
3.     کچھ کتابوں میں حوالہ مضمون کے ساتھ نہیں دیا جاتا، صرف  حوالہ نمبر دے کر کتاب کے آخر میں ماخذ و مراجع سے پہلے حوالہ نمبر کی گنتی کے لحاظ سے مکمل حوالہ درج کر دیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں بعد اوقات ماخذ و مراجع بھی حوالے کے ساتھ لکھ دیا جاتا ہے ، اور علیحدہ لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔










0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔