Friday, May 10, 2019

Sahih Muslim Complete Arabic-Urdu | صحیح مسلم مکمل عربی-اردو مترجم ابو العلاء محمد محی الدین جہانگیر



امیر المسلمین فی الحدیثمسلم بن حجاج بن مسلم، ابو الحسین القشیری نیشاپوری

تیسری صدی کے جن محدثین اور علماء راسخین نے علمِ حدیث کے تنقیح اور توضیح کے لئے متعدد فنون ایجاد کیے اور اس علم کی توسیع اور اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں امام مسلم بن حجاج القشیری کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔
امام مسلم فنِ حدیث کے اکابر آئمہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ابو زرعہ رازی اور ابو حاتم رازی نے ان کی امامتِ حدیث پر شہادت دی۔ امام ترمذی اور ابو بکر خزیمہ جیسے مشاہیر نے ان سے روایت حدیث کو باعث شرف سمجھا اور ابو قریش نے کہا کہ دنیا میں صرف چار حفاظ ہیں اور امام مسلم ان میں سے ایک ہیں۔

ولادت اور سلسلئہ نسب

عساکر الملت والدین ابو الحسین امام مسلم بن حجاج بن مسلم بن ورد بن کرشاد القشیری خراسان کے ایک وسیع اور خوبصورت شہر نیشاپور میں بنو قشیر کے خاندان میں پیدا ہوئے ۔ امام مسلم کی ولادت کے سال میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ شاہ عبد العزیز نے ان کا سالِ ولادت 202ھ لکھا ہے اور امام ذہبی نے 204ھ بیان کیا اور جبکہ ابنِ اثیر نے
206ھ کو اختیار کیا ہے۔

بقیہازابو بکر احمد بن علی الخطیب بغدادی (متوفی463ھ) 

          علم حدیث کے حفاظ آئمہ میں سے ایک ہیں "مسند صحیح" کے مصنف ہیں آپ نے (علم حدیث کی طلب میں) عراق، حجار، شام اور مصر کا سفر اختیار کیا، آپ کے اساتذہ میں
ی          حییٰ بن یحییٰ النیسابوری، قتیبۃ بن سعید، اسحٰق بن راہویہ، محمد بن عمروز نیجا، محمد بن مھران الحمال، ابراہیم بن موسیٰ الفراء، علی بن اجدع، احمد بن حنبل، عبید اللہ القواریری، خلف بن ہشام، سریج بن یونس، عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبی، ابو الربیع الزہرانی، عبد اللہ بن معاذ بن معاذ، عمر بن حجص بن غیاث، عمرو بن طلحۃ القناد، مالک بن اسمٰعیل النھدی، احمد بن یونس، احمد بن جواس، اسمٰعیل بن ابی اویس، ابراہیم بن المنذر، ابو مصعب الزہری، سعید بن منصور، محمد بن رمح، حرملۃ بن یحیٰ اور عمرو بن سواد۔
وغیرہ شامل ہیں آپ کئی مرتبہ بغداد شریف لائے اور یہاں علم حدیث کا درس دیا آپ 259 ہجری میں آخری مرتبہ بغداد شریف لائے۔
          امام عبد الواحد نے، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے، پوری سند کے ہمراہ، حضرات عباد بن تمیم کے چچا کے یہ بیان نقل کیا ہے:
          "میں نے نبی اکرم ﷺ کو چت لیٹے ہوئے دیکھا ہے آپ نے اپنی دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ دوسری پر رکھی ہوئی تھی"
امام احمد بن سلمہ بیان کرتے ہیں: میں نے امام ابو زرعہ رازی اور امام ابو حاتم رازی کو دیکھاہے، وہ صحیح احادیث کی معرفت میں امام مسلم بن حجاج کو اپنے زمانے کے دیگر مشائخ پر ترجیح دیتے تھے۔
          حسین بن محمد ماسر جسی بیان کرتے ہیں میں نے اپنے والد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے (وہ فرماتے ہیں) میں نے امام مسلم بن حجاج کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: میں نے تین لاکھ احادیث کے ذخیرہ میں سے اس "مسند صحیح" کو تصنیف کیا ہے۔
          امام ابو علی حسین بن علی نیشاپوری فرماتے ہیں: اس آسمان کے نیچے، علم حدیث میں امام مسلم بن حجاج کی کتاب سے زیادہ کوئی کتاب مستند نہیں ہے۔
(مشہور) بزرگ عمر بن احمد فرماتے ہیں: میں نے اپنے ایک ثقہ ساتھی (راوی کہتے ہیں) میرا خیال ہے وہ ابو سعید بن یعقوب تھے، کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: میں نے خواب میں شیخ ابو علی ظہوری کو 'شارع الحیرۃ" پر چلتے ہوئے دیکھا ان کے ہاتھ میں امام مسلم کی کتاب کا ایک جز تھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ انہوں نے جواب دیا: اس کی وجہ سے مجھے نجات مل گئی، انہوں نے (امام مسلم کی کتاب کے) اس جز کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔
          اسحٰق بن ابراہیم حنظلی نے امام مسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا"مراد کابن وذ" منکدری اس کا مقہوم یہ بیان کرتے ہیں " وہ کیسے عظیم آدمی تھے"؟ محمد بن یعقوب اخرم کہتے ہیں بہت کم مستند احادیث ایسی ہوں گی جو امام بخاری اور مسلم نے نقل نہ کی ہوں۔
          محمد بن احمد بن ہمدان الحیری بیان کرتے ہیں میں ابو العباس بن سعید بن عقدہ سے امام بخاری اور امام مسلم کے بارے میں دریافت کیا: ان دونوں میں کون زیادہ علم رکھتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: امام بخاری بھی عالم تھے اور امام مسلم بھی عالم تھے میں نے اپنا سوال کئی مرتبہ دہرایا، تو وہ یہی جواب دیتے رہے اوار پھر مجھ سے فرمایا: اے ابو عمرو! اہل شام کے بارے میں بخاری سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں کیونکہ امام بخاری نے ان کی کتابیں حاصل کر کے ان کا مطالعہ کیا تھا تو وہ بعض اوقات کسی ایک راوی کے حوالے سے اس کی کنیت کے ہمراہ کوئی روایت نقل کرتے ہیں اور کسی دوسری جگہ اسی راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ شاید وہ دو لوگ ہیں، امام مسلم نے اس حوالے سے بہت کم غلطیاں کی ہیں۔
          امام مسلم نے امام بخاری کا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ انہوں نے امام بخاری کے علم سے استفادہ کیا ہے اور ان کے طریقے پر گامزن ہوئے جب امام بخاری نیشاپور تشریف لائے تو امام مسلم ان کے ساتھ رہے اورا ان کی خدمت میں بار، بار جاتے رہے۔
          امام ابو الحسن دار  قطنی فرماتے ہیں اگر امام بخاری نہ ہوتے تو امام مسلم یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔
          ابو حامد احمد بن حمدون بیان کرتےہیں امام مسلم، امام بخاری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) بوسہ دے کر عرض کی، اے استادوں کے استاد! اے محدثین کے سردار! اے علم حدیث کے ماہر! مجھے اپنی قدم بوسی کا موقع دیں۔
          پھر امام مسلم نے امام بخاری سے کہا: آپ نے اپنی سند کے ہمراہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مجلس کے کفارے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وبارک وسلم کا فرمان نقل کیا ہے، اس کی سند  میں کیا خامی ہے؟ تو امام بخاری نے جواب دیا: یہ روایت ملیح سے منقول ہے اس بارے میں اس حدیث کے علاوہ، دنیا میں کسی اور روایت کی موجودگی کا مجھے علم نہیں ہے، لیکن اس کی سند میں ایک خامی ہے چونکہ موسیٰ بن عقبہ (راوی) نے اس روایت کو سہیل (نامی راوی) سے روایت کیا ہے، جبکہ عقبہ کا سہیل سے سماع ثابت نہیں۔
          امام مسلم، امام بخاری کی حمایت بھی کرتے رہے، یہاں تک کہ اسی وجہ سے ان کے اور امام محمد بن یحییٰ ذہلی کے درمیان ناچاقی ہو گئی۔
          ابو عبد اللہ محمد بن یعقوب کہتے ہیں،  جب امام بخاری نے نیشاپور میں سکونت اختیار کی تو امام مسلم ان کی خدمت میں بار بار حاضر ہوتے رہے، جب امام بخاری ذہلی کے درمیان (قرآن مجید) کے الفاظ کے بارے میں اختلاف ہوا اور امام ذہلی نے امام بخاری کے خلاف اعلان کروایا اور لوگوں کو ان کے پاس جانے سے روک دیا جس کی وجہ سے امام بخاری نیشا پور چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تو اس دوران امام مسلم کے علاوہ سب لوگوں نے امام بخاری کے پاس جانا چھوڑ دیا لیکن امام مسلم بدستور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور انہوں نے امام محمد بن یحییٰ کو یہ پیغام بھجوایا کہ مسلم بن حجاج ہر حال میں امام بخاری کے مؤقف کے قائل رہیں گے اس وجہ سے امام مسلم کو عراق  اور حجاز (جس پر 1924 میں غیر مسلم قوتوں کی پشت پناہی پر آل سعود نے قبضہ کیا اور حجازِ مقدس کا نام سعودی عرب رکھ دیا۔ آج تک آلِ سعود ہی حجازِ مقدس پر قابض ہے) میں ناگوار صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے مؤقف سے رجوع نہیں کیا۔
          جب امام محمد بن یحییٰ ذہلی نے یہ اعلان کیا، جو شخص (قرآن کے) الفاظ کے بارے میں (امام بخاری کے مؤقف کا) قائل ہو وہ ہماری مجلس میں نہیں آسکتا، تو امام مسلم  نے سب لوگوں کی موجودگی میں اپنی چادر، اپنے عمامے پر رکھی اور ان کی محفل سے اٹھ کر چلے گئے بعد میں انہوں نے امام محمد بن یحییٰ سے منقول، تحریر شدہ تمام روایات کا پلندہ ایک مزدور کو اٹھوا کر محمد بن یحیٰ کے دروازے پر بھجوا دیا، اس وجہ سے دونوں حضرات کے درمیان ناچاقی مزید پختہ ہو گئی اور امام مسلم نے امام ذہلی سے لا تعلقی اختیار کر لی۔
          احمد بن سلمہ بیان کرتے ہیں امام مسلم نے (علم حدیث کے بارے میں) مذاکرے کی ایک مجلس منعقد کی، ان کے سامنے ایک حدیث کا تذکرہ کیا گیا جس سے وہ واقف نہٰں تھے۔ جب وہ اپنے گھر واپس گئے تو چراغ جلا کر گھر والوں کو ہدایت کی، کوئی شخص میرے کمرے میں نہ آئے انہیں بتایا گیا ہمارے ہاں کھجوروں کا ایک ٹوکرا تحفے کے طور پر آیا ہے ۔ امام مسلم نے ہدایت کی، اسے میرے پاس رکھ دو گھر والوں نے ان کے پاس رکھ دیا۔ امام مسلم (رات بھر) وہ حدیث تلاش کرتے رہے اور (بے خیالی میں) وہ کھجوریں کھاتے رہے صبح ہونے تک وہ کھجوریں ختم ہو چکی تھیں اور انہیں وہ حدیث مل چکی تھی۔
           محمد بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں مجھے ایک مستند شخص نے بتایا ہے، اسی وجہ سے (یعنی بے خیالی میں بکثرت کھجوریں کھانے کی وجہ سے) ان کا انتقال ہوگیا۔
علم حدیث کے ماہر امام ابو عبد اللہ محمد بن یعقوب بیان کرتے ہیں، اتوار کی شام امام مسلم کا انتقال ہوا اور پیر کے دن انہیں دفن کر دیا گیا ۔
یہ واقعہ 25رجب 126ہجری میں پیش آیا

حسنِ عاقبت:

          امام مسلم سادہ دل و درویش تھے اور علم و عمل کی بہترین خوبیون کے جامع تھے۔ اللہ پاک نے انہیں ان کی خدمات کا بہترین صلہ عطا فرمایا: ابو حاتم رازی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مسلم کو خواب میں دیکھا اور ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا: اللہ عزوجل نے اپنی جنت کو میرے لئے مباح (جائز) کر دیا ہے اور میں اس میں جہاں چاہتا ہوں، رہتا ہوں۔
(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی متوفی 1229ھ، بستان المحدثین، ص281، مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی ، کراچی)

نوٹ:

          پہلا اور آخری پہلا گراف علامہ غلام رسول سعیدی کی مترجم صحیح مسلم  سے جبکہ درمیان سے خطیب بغدادی کی تحریر پر مشتمل تمام تحریر ابو العلاء محمد محی الدین جہانگیر کی مترجم صحیح مسلم سے نقل کیا گیا ہے۔  اور ان میں تعارف میں دیے گئے حوالہ جات بھی انہی دونوں مترجمین کی مترجم کردہ کتب سے لئے گئے ہیں۔
طالب دعا


صحیح مسلم مترجم اردو جلد اول 


صحیح مسلم مترجم اردو جلد دوم  




صحیح مسلم مترجم اردو جلد سوم 


------------------------------------------------------

                ابو بکر احمد بن علی جو "خطیب بغدادی" کے نام سے مشہور ہیں ۔ پانچویں صدی ہجری کے سربرآوردہ اہل علم میں سے ایک ہیں۔ آپ نے مختلف موضوعات پر بیسیوں کتب مرتب کی ہیں جن میں "تاریخ بغداد" کو لازوال شہرت نصیب ہوئی ہم نے اسی "تاریخ بغداد" میں "امام مسلم بن حجاج القشیری" کے احوال پر مشتمل حصہ اردو میں منتقل کر کے آپ کے سامنے پیش کر دیا۔ "امام مسلم کے حالات کا سیریل نمبر 7090 ہے اور کتاب کے محقق نے حاشیے میں امام مسلم کے مزید حالات کے لئے درج ذیل ماخذ کی نشاندہی کی ہے۔"
تاریخ دمشق(58/85/7417) تہذیب الکمال (18/68/6514) تقریب التہذیب (8150/6894) الکاشف (3/121/5482) ونہایۃ السول (8/2763/6896) 
از
 قلم ابو العلاء محمد محی الدین جہانگیر عفی عنہ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔