Sunday, May 12, 2019

سنن ابن ماجہ مکمل عربی-اردو مترجم عبد الحکیم اختر شاہ جہانپوری | Sunan Ibne Maja Complete Arabic-Urdu


امام ابن ماجہ کا تعارف
فن حدیث کے آئمہ ستہ میں امام ابن ماجہ کا نام سب سے اخیر میں آتا ہے۔ دوسرے آٹمہ حدیث کی طرح امام ابن ماجہ نے بھی خدمت حدیث میں بڑا نام کمایا اور اپنے بے شمار مداحین پیدا کیے۔ امام ابو القاسم  تاریخ قزوین میں لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ آئمہ  مسلمین کے ایک عظیم امام ثقہ شخصیت کے مالک اور اہل علم میں بے حد مقبول تھے۔ محدث خلیلی کہتے ہیں کہ وہ تفسیر، حدیث اور تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے خصوصاً  علم حدیث میں تو وہ بہت بڑے ماہر اور حافظ گردانے جاتے تھے اور ان کے اقوال لوگوں کے لیے سند کا درجہ رکھتے تھے۔ علامریاقوت حموی معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ کا قزوین کے ممتاز آئمہ میں شمار ہوتا تھا۔ اسی طرح شمس الدین ذہبی ، شهاب الدین، ابن حجر عسقلانی، ابن خلکان، ابن ناصر الدین اور دیگر مؤرخین اور ناقدین فن نے امام ابن ماجہ کی علم حدیث میں امامت، رفعتِ  شان ، وسعت نظر، حفظِ حدیث  اور ثقاہت کا اعتراف اور اقرار کیا ہے۔ ان کی علمی اور فنی خدمات کو سراہا ہے اور شاندار طریقے سے انکے فضائل  
اور مناقب بیان کیے ہیں،
نام و نسب
امام ابن ماجہ کا پورا نام اس طرح ہے: حافظ ابوعبدالله بن یزید الربعی ابن ماجہ القزوینی  
(حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھجری، تہذیب التہذیب
، ج 9، ص 531 )
حافظ لقب ہے، ابو عبد اللہ کنیت،محمد نام، یزید آپ کے والد کا نام ہے اور  ربعی، ربیعہ  بن نزار کی طرف نسبت ہے۔ قبیلہ ربیعہ سے نسبت ولاء کی بنا پر ان کو ربعی کہا جاتا ہے۔   جس طرح امام بخاری کو ولاء کی وجہ سے جعفی کہتے ہیں اور قزوینی، قزوین  کی وطن نسبت ہے جو عراق و عجم کا مشہور شہر ہے۔ یہ ایران کے صوبہ آذر بائیجان میں واقع  ہے اور امام ابن ماجہ کا وطن ہے۔
ابن ماجہ میں ماجہ فارسی لفظ ہے اور غالبا یہ لفظ ماہچہ کا معرب ہے۔ماجہ کے مصداق میں مؤرخین کا اختلاف ہے اور ان کی عبارات اس باب میں کافی مضطرب ہیں۔ شاہ عبدالعزیز نے بستان المحدثین میں لکھا ہے کہ ماجہ آپ کی والدہ کا نام تھا اور عجالہ نافعہ  میں لکھا ہے کہ یہ آپ کے والد کا لقب ہے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا  ہے کہ یہ آپ کے دادا کا نام ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ماجہ آپ کے والدیزید کا لقب ہے اور یہی اکثر علماء اور قزوین کے مورخین کا مختار ہے اس لیے قواعد املاء کے مطابق اس لفظ کو اثبات الف کے ساتھ یوں  لکھنا چاہئے۔ محمد بن یزید ابن ماجه تاکہ معلوم ہو کہ ابن ماجہ محمد کی صفت ہے اور یزید کی صفت نہیں ہے۔ اس لفظ کی املاء  میں ملا علی قاری سے ایک تسامح واقع ہوا ہے کیونکہ انہوں نے ابن ماجہ کویزید کا لقب اور محمد کی صفت قرار دینے کے باوجود یہ کہا ہے کہ اس لفظ بغیر الف کے لکھنا چا ہیے حالانکہ اس صورت میں ابن کو الف کے ساتھ ہی لکھنا چاہیے۔
ملا علی قاری کہتے ہیں :۔
اور ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ کو اثبات الف کے ساتھ لکھنا خطا ہے کیونکہ یہ ابن یزید سے بدل ہے، یعنی محمد کی صفت ہے، قاموس میں ہے کہ  ماجہ محمد بن یزید صاحب سنن کے والد کا لقب ہے نہ کہ دادا کا۔ (ملا علی قاری متوفی 1014ھ، مرقاۃ المفاتیح، ج 1، ص 68)
امام نووی  نے لفظ ابن لکھنے کا قاعدہ یہ بیان کیا ہے کہ اگر دو متناسل ناموں کے درمیان ابن آئے تو بغیرالف کے لکھاجاتا ہے۔ جیسے عبداللہ بن عمر یا عبد اللہ بن عباس اور اگر ان دو تناسل ناموں کے درمیان نہ ہو کہ پہلے نام کی صفت ہوتوالف کے ساتھ لکھا جاتا ہے، جیسے عبد اللہ بن عمر و ابن ام مکتوم میں ابن ام مکتوم یا عبد اللہ بن ابی ابن سلول میں ابن سلول کیونکہ پہلی مثال میں ام مکتوم، عبد اللہ بن عمرو کی اور دوسری مثال میں سلول، عبد اللہ بن ابی  کی والدہ کا نام ہے اور ابن ام مکتوم، عبد اللہ بن عمرو کی اور ابن سلول، عبد اللہ بن ابی کی صفت ہے۔ (امام ابو زکریا محی الدین شرف نووی متوفی 678ھ،  شرح مسلم علی حامش مسلم، ج 1، ص 68 )
ولادت اور حالاتِ زندگی
امام ابن ماجہ 209ھ کو عراق عجم کے مشور شہر قزوین میں پیدا ہوئے (امام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ، تذکرہ، ج2، ص630)
عام دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد علم حدیث کی طرف رجوع کیا۔ وطن اور بیرون وطن ہر جگہ روایت حدیث کو تلاش کیا اور دور دراز علاقوں میں جاکر علم دین حاصل کیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے خراسان ، عراق، حجاز (جس کو سعودی عرب کہا جاتا ہے) ، مصر اور شام کے متعدد  شہروں کا سفر کیا، جن میں مکہ معظمہ،  مدینہ طیبہ ، کوفہ، بصره ، بغداد اور طہران کے نام قابل ذکر ہیں۔ امام ابن ماجہ کے اساتذہ اور شیوخ کے اوطان پر نظر ڈالنے سے پر چلتا ہے کہ انہوں نے ان اساتذہ سے حصول علم کی خاطر اور شہروں کا بھی سفر کیا ہوگا جن میں اصفهان، رہواز، ایلہ، بلخ،  بیت المقدس، حران، دمشق ، فلسطین، عسقلان، مرواورنیش پور کا نام خاص طور پر لیا جاتا ہے۔
اساتذہ
                امام ابن ماجہ کے اساتذہ کی بھی ایک کثیر تعداد  ہے۔ جن میں چند حضرات کے اسماء  یہ ہیں محمد بن عبداللہ  بن نمیر جباره من المغلس، ابراہیم  بن المنذر الخرامی، عبد اللہ بن معاویہ، ہشام بن عماره،  محمدبن رمح اور داؤد رشید (امام ذہبی متوفی 748ھ، تذکرہ ج2، ص630) اور ان کے علاوہ ابوبکر بن ابی شیبه ، نصر بن علی، ابومروان محمد بن عثمان،محمد بن یحییٰ نیشاپوری اور یحییٰ بن حکیم وغیرہ بھی ابن  ماجہ کے مشہور اساتذہ میں شامل ہیں۔
تلامذہ
 امام ابن ماجہ سے فیض حاصل کرنے والے اور ان سے احادیث کی روایت کرنے والے حضرات کی بھی  ایک طویل فہرست ہے۔  چند حضرات کے اسماء یہ  ہیں۔ علی بن سعید بن عبداللہ الفلانی،ابراہیم بن دینار الجرشی الصمدانی ، احمد بن ابراہیم القزوینی، ابوالطيب احمد بن روح الشعرانی، اسحاق بن محمد القزوینی، جعفر بن ادریس حسین بن علی بن برانیاد، سلیمان بن یزید القزوینی، محمد بن عیسیٰ ، حافظ ابو الحسن علی بن ابراہیم بن سلمۃ القزوینی، ابو عمرو احمد بن محمد، حکیم المدنی الاصبہانی (حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ، تہذیب التہذیب، ج9، ص531)
تصانیف
امام ابن ماجہ سے تین کتابیں یادگار ہیں۔ (1) سنن ابن ماجہ  (2) تفسیر ابن ماجہ : امام سیوطی نے الاتقان میں تیسرے طبقہ کی تفسیروں میں ابن ماجہ کی تفسیر کا شمار کیا ہے۔ (امام الحافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911ھ، الاتقان، ج2، ص190)  لیکن اب یہ کتاب نایاب ہو چکی ہے (3) التاریخ  یہ صحابہ سے لے کر مصنف کے عہد  تک کی تاریخ ہے۔ حافظ ابن طاھر مقدسی متوفی 507ھ فرماتے ہیں  کہ میں نے قزوین میں اس کا ایک نسخہ دیکھا تھا لیکن اب یہ کتاب ناپید ہو چکی ہے۔
وصال
چونسٹھ سال زندگی گزار کر 22 رمضان المبارک، 273ھ، پیر کے دن امام ابن ماجہ کا انتقال ہو گیا اور منگل کے دن آپ کو دفن کیا گیا۔  (شاہ عبد العزیع دہلوی متوفی 1229ھ، بستان المحدثین ص299) حافظ ابو الفضل مقدسی شروط الائمہ الستہ میں لکھتے ہیں کہ آپ کے بھائی ابو بکر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کے صاحبزادے عبد اللہ اور دو بھائیوں نے مل کر آپ کو قبر میں اتارا۔


سنن ابن ماجہ جلد اول


 
سنن ابن ماجہ جلد دوم



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔