Saturday, May 11, 2019

Sunan Abu Daud Complete Arabic-Urdu | سنن ابو داؤد مترجم عربی-اردو مکمل



سوانح حیات امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ

وہ آئمہ حدیث جنہیں کتب صحاح ستہ مرتب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں سے ایک حضرت امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ مصنف سنن ابی داؤد بھی ہیں۔ حدیث و فقہ کی معرفت اور ادراک تام کے سبب علماء نے امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما کے بعد آپ کا درجہ اور رتبہ بیان کیا ہے۔ آپ کا اسم گرامی اور سلسلہ نسب اس طرح ہے۔ حافظ ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن سداد بن عمرو بن عمران الازدی سجستانی۔ آپ کی کنیت ابو داؤد ہے۔ آپ  کے جد اعلیٰ عمران، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں جنگِ صفین  میں شریک ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ 202ء میں آپ کی ولادت  معروف قبیلہ بنی ازد میں ہوئی، اسی نسبت سے آپ ازدی کہلاتے ہیں اور چونکہ آپ نے ملک سجستان میں آنکھ کھولی اس نسبت سے آپ سجتانی کہلاتے ہیں۔

کتاب کا ترجمہ اہل سنت کی عظیم علمی شخصیت محمد انور مگھالوی مد ظلہ العالی نے کیا ہے

وطن مالوف

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کا وطن سجستان ہے لیکن اس کے تعین کے بارے میں علماء نے دو آراء کا اظہار کیا ہے۔ ایک رائے کے مطابق سجستان بصرہ کے قریب ایک گاؤں ہے۔ اس کا اظہار مؤرخ ابن خلکان نے کیا ہے مگر دیگر علماء نے ان سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
            دوسری رائے جو صحیح اور عام ہے وہ یہ ہے کہ
مقام کے اعتبار سے آپ کی نسبت سیستان (سجستان) کی طرف ہے۔ یہ ایک مشہور ملک ہے جو ہند کے پہلو میں سندھ و ہرات کے مابین اور قندھار سے متصل واقع ہے اور بزرگان چشتیہ کا مشہور شہر چشت بھی اسی ملک میں واقع ہے۔ پہلے زمانے میں "بست" اس کا پایہ تخت تھا اسی ملک کی نسبت سے عرب لوگ آپ کو بستی بھی کہتےہیں۔ اس رائے کا اظہار شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، علامہ تاج الدین سبکی اور علامہ سمعانی وغیرہ جید اور مستند علماء نے کیا ہے۔

تعلیم و تربیت

آپ بنیادی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔ چونکہ رب کریم کی عطاء سے علم حدیث تفہیم و تحصیل کی رغبت اور شوق کے جذبات آپ میں مثل بحر موجزن تھے۔ اس لیے آپ نے اس کی معرفت اور ادراک کے لئے انتہائی مشقت آمیز اور دشوار گزار سفر اختیار  کئے اور دور دور تک مختلف اسلامی شہروں اور بستیوں میں مستند اساتذہ اور شیوخ تک پہنچنے کے لئے صحراؤن اور جنگلوں کی خاک چھانی۔ خاص طور پر مصر، شام، حجاذ، عراق، خراسان، بغداد اور بصرہ کے علاقوں میں قیام فرما ہو کر وہاں کے محدثین اور مستند مشائخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے اور اپنے سینے کوعلم حدیث کے نور سے بقعہ نور بنایا۔
آپ نے اپنے مشارخ سے جن میں حضرت امام بخاری رحمتہ الله علیہ کے بھی بعض اساتذہ شامل تھے۔ ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ علوم معرفت بھی حاصل کئے۔ اس لیے آپ عظیم محدث اور فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ صلحاء واتقیاء کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی تھے۔ آپ زہد وتقوی کے اعلی معیار پر فائز تھے۔ عبادت وریاضت کے دلدادہ تھے۔ تواضع ، انکساری اور سادگی کا پیکر تھے۔ اس لیے جہاں ظاہری علوم کے پیاسے آپ کے گرد پروانوں کی مثل جمع رہتے تھے۔ اسی طرح صلحائے امت باطنی فیوض و برکات کے حصول کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ صرف یہی نہیں! بلکہ آپ حمیت، خودداری اور دینی وقار و تمکنت کے اس ارفع معیار پر فائز تھے کہ شاہان وقت بھی اپنی حاجات لے کر آپ کے دروازے پر دستک دیتے نظر آتے تھے۔ المختصر آپ  علوم و معارف کا ایسا بحر بیکراں تھے جس کی طرف طلبا ء ، علماء اور صلحاء اپنا اپنا گوہر مقصود حاصل کرنے کے لیے یکساں رجوع کیا کرتے تھے اور آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے تھے، ذراصلحاء کا انداز عقیدت و محبت تو ملاحظہ فرمایئے:”قاضی ابو احمد بن دلیث بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتب مشہور عارف بالله حضرت سہل بن عبد الله تستری، امام ابوداؤد سے ملاقات کے لیے آئے جب آپ کو معلوم ہوا تو انتہائی اظہار مسرت فرمایا اور آپ کو خوش آمدید کہا۔ حضرت سہل رحمة الله علیہ نے کہا: اے امام ذرا وہ مبارک زبان تو دکھائیے جس سے آپ حدیث رسول بیان کرتے ہیں تا کہ میں اس مقدس زبان کو بوسہ دوں تو حضرت امام ابوداود رحمة الله علیہ نے اپنی زبان دہن سے باہر نکالی اور حضرت سہل رحمت الله علیہ نے انتہائی عقیدت کے ساتھ اسے بوسہ دیا۔
اور آپ کے دینی وقار اور تمکنت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائے کہ حضرت عبد الله بن محمد سبکی فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام ابوداود کے ایک خادم ابوبکر بن جابر نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ میں امام ابوداؤد کے ساتھ بغداد میں تھا۔ ہم مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے توکسی آدمی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو کیا دیکھا کہ امیر ابو احمد موفق  کھڑا تھا۔ میں نے حضرت امام صاحب کو اطلاع کی تو آپ نے امیر کو بلا لیا اور پوچھا اس وقت کونسی حاجت لے کر آپ یہاں آئے ۔ تو امیر نے جواب دیا میں تین سوال لے کر حاضر ہوا ہوں۔ فرمایا: بتلاؤ  وہ کیا ہیں؟ تو امیر نے کہا: کہ پہلی عرض تو یہ ہے کہ آپ یہاں سے بصرہ تشریف لے چلیں اور اسے اپنا مستقل وطن بنا لیں تا کہ وہاں زیادہ سے زیادہ علم کے شیدائی آپ سے فیض یاب ہوسکیں۔ اور دوسری عرض یہ ہے کہ آپ میری اولاد کے لیے کتاب السنن روایت کریں اور تیسری درخواست یہ ہے کہ آپ میرے بچوں کو باقی طلباء سے علیحدہ پڑھائیں کیونکہ خلیفہ کے بچوں کے لیے عام بچوں کے ساتھ مل کر پڑھنا مشکل ہے۔ یہ سن کر حضرت امام ابوداود رحمة الله علیہ نے فرمایا: تیری دوخواشیں تو پوری ہوسکتی ہیں لیکن تیسری قطعاً  پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ علم کی تحصیل میں عام طلباء اور خلیفہ کے بچوں کے درمیان کوئی تفاوت اور امتیاز نہیں ۔ پھر ایسا ہی ہوا آپ بصرہ تشریف لے گئے وہاں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا جہاں خلیفہ کے صاحبزادے بھی عام طلباء کی صف میں بیٹھ کر اکتساب علم کیا کرتے تھے۔
v     احمد بن محمد یاسین البروی فرماتے ہیں:
كان احد حفاظ الاسلام للحديث و علمه وعلله وسنده في اعلى درجة جامع النسک
والعفاف والصلاح والوع
آپ حافظ حدیث تھے۔ سند حدیث اور اس کی عقل کے ماہر تھے۔ زہد وتقوی اور عفت و خشیت میں اعلی درجہ پر فائز تھے۔و
v     ابوحاتم بن حبان رحمة الله علی فرماتے ہیں:
كان احد أئمة الدنيا فقها و علما حفظ و نسکا وورعا واتقانا
 حضرت امام ابو داد در حمته الله علیہ علم حدیث علم فقہ اور خداخوفی میں دنیا والوں کے امام تھے۔
٭ ابن منده رحمة الله علیہ کا قول ہے کہ احادیث کی تخریج، معلول و ثابت اور غلط و صحیح میں تمیز کر نے والے چار آدمی  ہیں امام بخاری، امام مسلم اور ان کے بعد ابو داؤد اور نسائی۔
v     موسیٰ بن ہارون رحمة الله علیہ فرماتے ہیں۔
خلق ابوداؤد فی الدنیا للحديث و في الآخرة للجنة
حضرت امام ابوداو ددنیا میں خدمت حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیے گئے۔

تصنیف وتالیف

حضرت امام ابوداود رحمة الله تعالی علیہ نے اپنی ساری زندگی تحصیل علم اور پھر علم حدیث کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اس سلسلہ میں آپ نے کثیر مرتبہ سفر اختیار کیے اور درس و تدریس کی صورت میں بھی انگنت تشنگان علم کو علم کی دولت سے مالا مال فرمایا۔ لیکن ان تمام مصروفیات کے باوجو دتصنیف و تالیف کا شعبہ بھی تشن نہیں رہنے دیا بلکہ اس میں عظیم خدمات سرانجام دیتے ہوئے درج ذیل کتابیں  بطور یادگار چھوڑیں۔
1.کتاب الردعلی اہل القدر2. کتاب الناسخ والمنسوخ 3. کتاب المسائل  4. مسند مالک5 . کتاب المراسیل  6.کتاب المصابیح 7. کتاب المصاحف 8. کتاب البعث والنشور  9. کتاب التفسیر 10. کتاب نظم القرآن 11.کتاب فضائل القرآن12. کتاب شریعۃالتفسیر 13. کتاب شریعۃ المقارئی14. فضائل الاعمال 15.کتاب الزہد  16. دلائل النبوۃ 17. کتاب الدعاء  18. کتاب بدء الوی  19.کتاب اخبار الخوارج 20.کتاب التفرد 21.کتاب فضائل الانصار 22. کتاب السنن

وصال

امام الحدیث حضرت ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ چراغ علم روشن کیے بیٹھے تھے اور علم کے شیدائی اپنے قلوب و اذہان کو نور علم سے منور کرنے کے لئےپروانہ وار امڈے چلے آرہے تھے کہ اتنے میں قاضئ تقدیر نے اپنے اٹل فیصلے کا اعلان کیا تو 16 شوال 275ھ ہجری بروز جمعۃ المبارک بصرہ میں وقت کے عظیم محدث اور عالم با عمل نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر دی۔
آپ نے وصیت فرمائی کہ مجھے غسل حسن بن مثنیٰ سے دلوایا جائے اور ان کی عدم موجودگی میں حماد بن زید کی روایت کے مطابق مجھے غسل دیا جائے۔ آپ کی اس وصیت کو عملی جامہ پہنایا گیا۔
بعد ازاں آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز عباس بن عبد الواحد کو حاصل ہوا۔
اللھم ادخلہ فی جوارک القدس

جلد اول  


جلد دوم


جلد سوم



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔