Friday, January 4, 2019

Mota Imam Malik Arabic&Urdu | (موطا امام مالک عربی-اردو)



           معزز دوستو! حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ وہ سب سے پہلے شخص ہیں جو دنیائے علم میں بیک وقت حدیث اور فقہ کے امام کہلائے۔ ایک طرف مغرب و مشرق میں ان کے مقلدین کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے تو دوسری طرف امہات کتب حدیث میں سے اکثر ایسی ہیں جن کی کچھ  نہ کچھ احادیث کا سلسلہ سند امام مالک تک پہنچتا ہے۔ فن حدیث میں سب سے پہلے انہوں نے باقاعدہ ایک کتاب لکھی اور اس کے بعد تصنیفات کتب حدیث کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت عشق رسالت سے معمور تھی۔ مدینۃ المنورہ کے ذرہ ذرہ سے انہیں پیار تھا۔ اس مقدس شہر کی سر زمیں میں وہ کبھی کسی سواری پر نہیں بیٹھے اس خیال سے کہ ممکن ہے کبھی اس جگہ حضور پیادہ چلے ہوں پھر جس جگہ آقا پیدل چلے ہوں اس جگہ غلام سوار ہوکر چلے۔ یہ انداز محبت ہے نہ طور غلامی۔
درس حدیث کا بہت اہتمام
کرتے تھے۔ غسل کر کے عمدہ اور صاف لباس زیب تن کرتے ۔ پھر خوشبو لگا کر مسند درس پر بیٹھ جاتے اور اسی طرح بیٹھے رہتے۔ کبھی دوررانِ درس پہلو نہیں بدلتے تھے۔ ایک دفعہ دوران درس بچھو انہیں پیہم ڈنگ لگاتا رہا۔ مگر اس پیکر عشق و محبت کے جسم میں کوئی اضطراب نہیں آیا اور وہ اسی انہماک اور استغراق کے ساتھ اپنے محبوب ﷺ کی دلکش روایات اور باعثِ ہدایت احادیثِ مبارکہ بیان کرتے رہے۔

ولادت اور نام و نسب

           آپ کا مکمل نام یہ ہے:  "امام دارالہجرت امام مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن الحارث"
 (تذکرۃ الحفاظ ، ج1، ص207، لامام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ)
 الاصبحی امام مالک کے پردادا ابو عامر بن عمرو جلیل القدر صحابی تھے۔ غزوہ بدر کے سوا وہ حضور ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے۔ (درایۃ الموطا ، ص17،از شاہ ولی اللہ دہلوی متوفی 1176ھ)
امام مالک کے جدِ اعلیٰ عمرو بن حارث ذواحبح کے ساتھ مشہور تھے۔ اس وجہ سے آپ کو اصبحی کہا جاتا ہے۔
(بستان المحدثین، ص12، از شاہ عبد العزیز محدث دہلوی متوفی 1229ھ)

           امام مالک کے سال ولادت میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ لیکن امام مالک کے تلمیذ رشید یحیٰ بن بکیر نے بیان فرمایا ہے کہ آپ کی ولادت 94ھ میں ہوئی اور امام ذہبی نے اسی کو صحیح ترین قول قرار دیا ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ، ج1، ص214، امام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ)

اساتذہ

           خلفائے راشدین کے عہد میں مسائل فقہیہ اور فتاویٰ کے سلسلہ میں عام طور پر لوگوں کا رجوع حضرت عائشہ، عبداللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ، انس اور جابر رضی اللہ عنہم کی طرف ہوتا تھا اور یہی وہ نفوسِ قدسیہ تھے جو اس زمانہ میں دائرہ علمیہ کا مرکز قرار پائے تھے۔ عصر صحابہ کے بعد فقہا و تابعین نے ان حضرات کی میراث کو سنبھالا جن میں سعید بن مسیب، عروہ، سالم اور قاسم رحمۃ اللہ علیہم کے نام بڑے مشہور ہیں۔ تابعین کے بعد تبع تابعین میں سے ابن شہاب زہری، یحیٰ بن سعید انصاری، زیدبن اسلم، ربیعہ رحمۃ اللہ علیہم  وغیرہم نے اس سلسلہ کو قائم رکھا۔  امام مالک نے جس علمی فضا میں ہوش و حواس کی آنکھ کھولی وہ انہی حضرات کا زمانہ تھا۔ حضرات تبع تابعین جس علم کو تابعین اور وہ صحابہ کرام سے سینہ بہ سینہ منتقل کرتے چلے آرہے تھے۔ اس علم کو انہوں نے ان تمام بزرگ حضرات سے حاصل کر کے صفحات قرطاس پر محفوظ کر لیا تھا۔
           امام مالک کے اساتذہ اور مشائخ میں زیادہ تر مدینہ طیبہ کے بزرگانِ دین شامل تھے۔ علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے نو سو سے زیادہ مشائخ و بزرگانِ دین سے علمِ دین حاصل کیا ہے۔
(شرح الزرقانی الموطا، ج1، ص2، الشیخ محمد بن عبد الباقی زرقانی متوفی 1128ھ)
           آپ کے اساتذہ میں سے چند حضرات کے اسماء یہ ہیں۔ عامر بن عبد اللہ بن العوام، نعیم بن عبد اللہ ، زید بن اسلم، نافع مولیٰ ابن عمر، حمیدالطویل، سعید المقبری، ابو حازم، سلمۃ بن دینار، شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، صالح بن کیسان زہری، صفوان بن سلیم، ربیع بن عبد الرحمان، ابو الزناد ابن المنکدر، عبد اللہ بن دینار ابو طوالۃ، عبد ربہ، یحیٰ بن سعید، عمر بن ابی عمر، مولی المطلب علاء بن عبد الرحمان، ہشام بن عروہ، یزید بن المہاجر، یزید بن عبد اللہ بن خصیفہ، ابو الزبر المکی، ابراہیم موسیٰ بن عقبہ، ابو السختیانی، اسماعیل بن ابی حکیم، حمید بن عبد الرحمان، جعفر بن محمد صادق، حمید بن قیس مکی، داؤد بن الحسن، زیاد بن سعد، زید بن رباح، سالم ابی النفر، سہیل بن ابی صالح، صیفی مولیٰ ابو ایوب، ضمرۃ بن سعید ، ظلحۃ بن عبد الملک الایلی، عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم، عبداللہ بن الفضل الہاشمی، عبد اللہ بن یزید، عبد الرحمان بن ابی صعصتہ، عبد الرحمان بن القاسم، عبد اللہ بن ابی عبد اللہ الانمر، عمر بن مسلم بن عمارۃ بن اکمیہ ،  عمرہ بن یحیٰ بن عمارۃ، قطن بن وہب، ابو الاسود عروۃ ، محمد بن عمر بن حلملۃ، محمد بن یحیٰ بن حبان، مخرجہ بن بکیر رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم۔
(تہذیب التہذیب، ج10، ص5، از حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی، 852ھ)

تلامذہ

           امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت رکھی تھی اور مسلمانوں کے لئے یہ مبارک شہر تمام شہروں میں قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے اطرف و اکناف سے لوگ یہاں آتے رہتے تھے اور مدینہ منورہ میں امام دار لہجرت مالک بن انس کی علمی شہرت اپنے کمال پر پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے بے شمار لوگوں کے آپ سے علم حدیث کے سماع کا شرف حاصل ہوا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے مشائخ ، معاصرین اور عام تلامذہ سب قسم کے لوگوں نے احادیث روایت کی ہیں۔
           مشائخ میں ابن شہاب زہری، یحیٰ بن سعید  انصاری اور یزید بن عبد اللہ بن الہاد معاصرین میں سے امام اوزاعی، امام ثوری، ورقاء بن عمر الشعبہ بن الحجاج، ابن جریج، ابراہیم بن طمان، لیث بن سعد اور ابن عیینہ ۔ عمر میں بزرگ حضرات میں سے ابو اسحاق فزاری، یحیٰ بن سعید القطان، عبد الرحمان بن مہدی، حسین بن ولید نیشا پوری، روح بن عبادہ، زید بن الحباب، امام شافعی، ابن المبارک، ابن وہب، ابن قاسلم، قاسم بن یزید، الجرمی، معن بن عیسیٰ، یحیٰ بن ایوب مصری، ابو علی حنفی ، ابو نعیم  وبو عاصم، ابو الولید طیالسی، احمد بن عبد اللہ بن یونس، اسحاق بن یسیٰ بن الطباع، بشر بن عمر الزاہدی، جویرۃ بن اسماء، خالد بن مخلد، سعید بن منصور، عبد اللہ بن رجاء مکی، قصبنی، اسماعیل بن یونس، اویس یحیٰ بن یحیٰ نیشا پوری، ابو مسہر عبد اللہ بن یوسف عبد العزیز اویسی، مکی بن ابراہیم، یحیٰ بن عبد اللہ بن کبیر، یحیٰ بن فزعۃ، قتیبہ بن سعید، ابو مصعب زہری، اسماعیل بن موسیٰ فزاری، خلف بن ہشام، عبد الاعلی بن حماد الدرسی، سوید بن سعید، مصعب ابن عبد اللہ زبیرہ، ہشام بن عمار، عتبہ بن عبد اللہ مروزی اور ابو حذافہ احمد بن اسماعیل مدنی۔
(تہذیب التہذیب، ج10، ص6، از حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ)

شخصیت

           امام مالک کا قدر دراز، بدن فربہ اور رنگ سفید مائل بہ زردی تھا۔ آنکھیں بڑی اور خوبصورت تھیں ناک بلند اور سر پر برائے نام بال تھے۔ مونچھیں بطرز سبالہ رکھا کرتے ہیں۔ امام مالک نے ستاسی سال کی عمر گزاری لیکن ڈاڑھی میں خضات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یمن، مصر اور خراساں کے بنے ہوئے بیش قیمت لباس زیب تن فرماتے۔ عام طور پر سفید رنگ کا لباس پہنتے تھے اور عطر لگاتے تھے۔ سر پر عمام باندھتے تھے اور دونوں شانوں کے درمیان شملہ  لٹکایا کرتے تھے اور ضرورت کے بغیر کبھی سرمہ نہیں لگاتے تھے۔ چاندی کی انگشتری پہنتے تھے ، جس پر سیاہ رنگ کا نگینہ تھا اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل کندہ کرایا ہوا تھا۔ ان سے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا اللہ عزوجل مومنین کے بارے میں فرماتا ہے وقالو احبنا اللہ ونعم الوکیل اس وجہ سے میرا دل چاہتا ہے کہ اس آیت کا مضمون ہمیشہ میرے سامنے رہے حتیٰ کہ میرے دل پر منقش ہو جائے۔
           امام مالک کو تحصیل علم کی بے حد لگن تھی۔ زمانہ طالب علمی میں آپ کے پاس کچھ زیادہ مال نہ تھا لیکن کتابوں کا اشتیاق اس قدر تھا کہ مکان کی چھت توڑ کی اس کر لکڑیاں فروخت کیں اور کتابیں خریدیں اس کے بعد اللہ پاک نے ان پر دولت کا دروازہ کھول دیا۔ آپ کو حافظہ نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ فرمااتے ہیں جس چیز کو میں ایک بار دیکھتا ہوں اس کو یاد کر لیتا ہوں اور پھر اس کو نہیں بھولتا۔
           امام مالک مدینہ منورہ کے جس مکان میں رہتے تھے۔ وہ عبد اللہ بن مسعود کی رہائش گاہ تھی۔ مسجد نبوی میں اس جگہ بیٹھتے ، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  بیٹھا کرتے تھے۔ امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں کبھی کسی بیوقوف شخص کے ساتھ ہم نشینی نہیں کی۔ امام مالک تنہائی میں کھانا کھاتے تھے۔ اس لیے کسی شخص نے آپ کے خورد و نوش کے احوال بیان نہیں کیے وقار اور دبدبہ کے باوجود امام مالک اپنے اہل و عیال اور خدام کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مدینہ منورہ کا بے  حد احترام کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اہل و عیال اور خدام کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مدینہ منورہ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ نے حرم مدینہ میں کبھی قضائے حاجت نہیں کی۔ قضائے حاجت کے لئے تمام عمر حرم مدینہ باہر تشریف لے جاتے رہے۔ امام مالک مدینہ منورہ میں کبھی سوار ہو کر نہیں نکلتے تھے اور اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ جس شہر میں رسول اللہ ﷺ کا روضہ ہوا اس شہر کی سر زمین کو سواری کے سموں اور روندتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔
(بستان المحدثین، ص14 تا 22، از شاہ عبد الحق محدث دہلوی متوفی 1229ھ)

معمولاتِ زندگی

           امام مالک کی زندگی سادہ اور پر وقار تھی ۔ لوگوں کے ساتھ معاملات میں بے حد خلیق اور متواضع تھے۔ انہوں نے ساری زندگی علمی خدمات اور تعظیم حرم رسول میں گزاری۔ ابو مصعب کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے سنا وہ فرماتے  تھے کہ میں نے اس وقت تک فتویٰ لکھنا نہیں شروع کیا جب تک ستر علماء نے میری اہلیت کی گواہی نہیں دی۔ امام زرقانی بیان کرتے ہیں کہ امام مالک نے اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ احادیث تحریر کی ہیں۔ سترہ سال کی عمر میں درس حدیث شروع کیا اور اس وقت ان کا حلقہ درس اپنے معاصرین کے حلقوں میں سب سے بڑا تھا۔ طلباء کا انبرہِ کثیر ہر وقت ان کے دروازے پر موجود رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے دروازے پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا۔ پہلے خواص اہلِ علم کو آنے کی اجازت تھی اور پھر عام طلباء کو۔  (شرح الزرقانی الموطاء ، ص3، از شیخ محمد عبد الباقی زرقانی متوفی 1128ھ)
           امام مالک انتہائی شادہ اور بے نفس تھے۔ ابن مہد بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے امام مالک سے مستلہ پوچھا ! آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں اس کو اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا۔ وہ شخص کہنے لگا میں بڑی دور سے آپ کا نام سُن کر مستلہ معلوم کرنے آیا تھا۔ آپ نے فرمایا جب واپس اپنے گھر پہنچو تو بتا دینا کہ مالک نے کہا تھا کہ میں یہ مستلہ اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا۔  (تذکرۃ الحفاظ ج1، ص209، از امام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی، متوفی 748ھ)

درسِ حدیث

           امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سترہ سال کی عمر میں تعلیم و تدریس کی ابتداء کر دی تھی۔  حدیث شریف پڑھانے سے پہلے غسل کرتے۔ عمدہ اور بیش قیمت لباس زیب تن کرتے، خوشبو لگاتے ، پھر ایک تخت پر نہایت عجز و انکساری سے بیٹھتے اور جب تک درس جاری رہتا انگیٹھی میں عود اور لوبان ڈالتے رہتے تھے ۔ درسِ حدیث کے  کبھی پہلو نہیں بدلتے تھے۔ عبد اللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں درسِ حدیث میں حاضر ہوا اور امام مالک رضی اللہ عنہ حدیث فرما رہے تھے ، اسی دوران ایک بچھو کی نیش زنی کے باوجود آپ نے نہ پہلو بدلا، نہ سلسلہ روایت ترک کیا اور نہ ہی آپ کے تسلسل کلام میں کچھ فرق واقع ہوا۔ بعد میں آپ نے فرمایا: میرا اس تکلیف پر اس قدر صبر کرنا کچھ اپنی طاقت کی بناء پر نہ تھا بلکہ محض رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے تھا۔
(بستان المحدثین، ص20، از شاہ عبد الحق محدث دہلوی متوفی 748ھ)
           عام طور پر درسِ حدیث شریف کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ استاد حدیث پڑھے اور شاگرد سنتا رہے اور دوسرا یہ کہ شاگرد حدیث پڑھے اور استاد سنتا رہے ۔ اہل عراق نے درس حدیث کے لئے صرف پہلے طریقہ کو اختیار کر لیا اور اسی طریقہ میں درسِ حدیث کو منحصر خیال کرتے تھے۔ اس وجہ سے امام مالک اور حجاز کے دوسرے علماء نے درسِ حدیث کے لئے دوسرے طریقوں کو اختیار کر لیا تھا۔ (بستان المحدثین، ص19، از شاہ عبد الحق محدث دہلوی متوفی 748ھ)

کلمات الثناء

              حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ عنقریب لوگ علم کی طلب میں سفر کر کے اونٹوں کے جگر پگھلا دیں گے پھر بھی انہیں عالم مدینہ سے بہتر کوئی عالم نہ مل سکے گا۔  سفیان بن عیینہ اور امام عبد الرزاق کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس فرمان میں امام مالک کی طرف اشارہ ہے۔  (شرح الزرقانی للموطا، ج1، ص3، از شیخ محمد عبد الباقی زرقانی ، 1128ھ)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ علماء کے درمیان ایک درخشندہ ستارے کی مانند ہیں۔ نیز فرماتے ہیں کہ اگر امام مالک اور سفیان بن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز سے علم رخصت ہو جاتا۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ اگر مالک اور لیث رحمۃ اللہ علیہما نہ ہوتے تو ہم گمراہ ہو جاتے۔  اسحاق بن ابراہیم کہتے تھے جس بات پر ثوری، مالک اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہم اتفاق کر لیں وہ سنت ہے خواہ اس باب میں صریح نص وارد نہ ہو۔  (تذکرۃ الحفاظ ، ج1، ص209،    از امام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ)
           امام نسائی  فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک تبع تابعین کی جماعت میں امام مالک سے زیادہ عظیم کوئی شیخ نہیں اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی شخص حدیث مامون تھا۔   (تہذیب التہذیب، ج10، ص9، از حافظ ابن حجر عسقلانی، متوفی 852ھ)
عبد الرحمان بن مہدی کہتے تھے کہ سفیان ثوری روایت حدیث میں امام تھے اور اوزاعی قواعد سلف کے امام تھے اور امام مالک ان دونوں فنون کے امام تھے نیز وہ یہ بھی کہتے تھے کہ میں امام مالک سے کوئی زیادہ عقلمند شخص نہیں دیکھا۔
(ورایۃ الموطا، ص17، از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی 1176ھ)
           یحیٰ بن سعید قطان اور یحیٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہما انہیں امیر المؤمنین فی الحدیث کہتے تھے۔ نیز ابن معین کہتے تھے کہ امام مالک مخلوق پر اللہ عزوجل کی حجت ہیں۔ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ قوی حافظہ رکھتے تھے۔ امام احمد بن احمد نے کہا کہ ابن شہاب زہری کے شاگردوں میں امام مالک سب سے زیادہ فائق تھے اور امام بخاری نے کہا کہ صحیح ترین  سند یہ ہے۔ مالک عن نافع عن ابن عمر۔ 
(ورایۃ الموطا ، ص17، از شاہ ولی اللہ محدیث دہلوی متوفی، 1176ھ)
           امام ذہبی فرماتے ہیں کہ امام مالک متعدد خصائل میں منفرد ہیں۔ اول طول عمر و علو روایت، ثانی ذہن ثاقب  اور وسعتِ علم، ثالث ان کی روایات کی جمعیت پر آئمہ کا اتفاق۔ رابع (چوتھا) ان کے تدین،  تقویٰ اور اتباعِ سنت پر لوگوں کا اجماع، خامس (پانچواں) فقہ اور فتوی میں ان کا تقدم۔ 
 (تذکرۃ الحفاظ ، ج1، ص212، از امام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی ، متوفی 748ھ)

وصال

           یحیٰ بن یحیٰ مصمودی بیان کرتے ہیں کہ جب امام مالک کا مرض الموت طویل ہوا اور وقت آخر آپہنچا تو مدینہ منورہ اور دوسرے شہروں سے تمام علماء اور فقہاء امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مکان میں جمع ہو گئے تاکہ امام مالک کی آخری ملاقات سے فیض یاب اور ان کی وصیتوں سے بہرہ مند ہوں۔ یحیٰ بن یحیٰ کہتے ہیں کہ اس وقت امام مالک کی عیادت کرتے والے مجھ سمیت ایک سو تیس علماء حاضر تھے۔  میں بار بار امام کے پاس جاتا اور سلام عرض کرتا تھا  تاکہ اس آخری وقت میں امام کی نظر مجھ پر پڑ جائے اور وہ نظر میری سعادت اخروی کا وسیلہ بن جائے۔ میں اسی کیفیت میں تھا کہ امام نے آنکھیں کھولیں اور ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ اللہ سبحانہ کا شکر ہے جس نے ہم کو کبھی ہنسایا اوار کبھی رلایا اس کے حکم سے زندہ رہے۔ اس کے حکم سے جان دیتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا موت آگئی۔ اللہ عزوجل سے ملاقات کا وقت قریب ہے۔ حاضرین نے عرض کیا اس وقت آپ کے باطن کا کیا حال ہے تو فرمایا: میں اس وقت اولیاء اللہ کی مجلس کی وجہ سے بہت خوش ہوں کیونکہ اہل علم کو اولیاء اللہ گردانتا ہوں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد علماء سے زیادہ کوئی شخص پسند نہیں ہے۔ نیز میں اس لئے بھی خوش ہوں کہ میری تمام زندگی علم کی تحصیل  ، اور اس کی تعلیم میں گزری ہے اور میں اس سلسلہ میں اپنی تمام مساعی کو مستجاب اور مشکور گمان کرتا ہوں،  اس لئے  کہ تمام فرائض اور سنن اور ان کے ثواب کی تفصیلات ہم کو زبانِ رسالت سے معلوم ہوئیں  مثلاً حج کا اتنا ثواب ہے اور زکوٰۃ کا اتنا اور ان تمام معلومات کو سوا حدیث کے طالب علم کے اور کوئی شخص نہیں جان سکتا اور یہی علم اصل میں نبوت کی میراث ہے۔ یحیٰ بن یحیٰ مصمودی کہتے ہیں اس کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ربیع کی ایک روایت بیان کی کسی شخص کو نماز کے مسائل بتلانا روئے زمین کی تمام دولت کو صدقہ کرنے سے بہتر ہے اور کسی شخص کی دینی الجھن دور کر دینا سو حج کرنے سے افضل ہے اور ابن شہاب زہری کی روایات سے بتلایا کہ کسی شخص کو دینی مشورہ دینا سو غزوات میں جہاد کرنے سے بہتر ہے۔  یحیٰ بن یحیٰ کہتے ہیں، اس گفتگو کے بعد امام مالک نے کوئی بات نہیں کی اور اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔   (بستان المحدثین، ص139، از شاہ عبد العزیز محدث دہلوی متوفی 1229ھ)
           امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام مالک کا سن وصال  مؤرخین کے اتفاق سے 179ھ ہے البتہ تاریخ میں اختلاف ہے۔ ابو مصعب اور ابن وہب نے تاریخ وصال 10 ربیع الاول بیان کی ہے۔ ابن سحنون نے گیارہ ربیع الاول، ابن اویس نے چودہ ربیع الاول اور مصعب زبیری نے آپ کا وصال ماہِ صفر میں ذکر کیا ہے۔
  (تذکرۃ الحفاظ، ج1، ص213،  از امام ابو عبد اللہ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ)




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔