Sunday, May 12, 2019

سنن نسائی مکمل عربی-اردو مترجم ملک محمد بوستان | Sunan Nasai Complete Arabic-Urdu


بسم الله الرحمن الرحيم

سوانح حیات حضرت امام نسائی رحمۃ الله تعالی
 نام: احمد بن شعيب بن علی بن بحر بن سنان بن دینار
 لقب:  امام
کنیت: ابوعبدالرحمن
امام ابو عبد الله ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں اور امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں سن پیدائش 215ہجری بتایا ہے۔ جبکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے بستان المحدثین میں 214ہجری ذکر کیا ہے۔ امام نسائی نے اپنی پیدائش کا سال 215ہجری قرار دیا ہے۔
آپ کی پیدائش خراسان کے مشہور شہر "نسا" میں ہوئی۔ اسی نسبت سے آپ نسائی کہلاتے ہیں۔ تاہم بعد ازاں مصر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
مروج علوم کی تحصیل کے بعد علم حدیث کے حصول کے لیے جناب قتیبہ بن سعید بلخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے ہاں آپ کے استفادہ کا دورانیہ ایک
سال دو ماہ ہے۔ بعدازاں دوسرے مشارے سے اکتساب فیض کیا۔
علم حدیث میں کمال حاصل کرنے کے لیے آپ نے مختلف ممالک کا سفر کیا۔ ان میں حجاز (جس کو اب سعودی عرب کہا جاتا ہے)، عراق، شام، خراسان اور مصر شامل ہیں۔ .
جن عظیم ہستیوں سے آپ نے اکتساب فیض کیا ان میں یہ نمایاں ہیں۔
حضرت قتیبہ بن سعید حضرت اسحاق بن راہویہ، حضرت ہشام بن عمار، حضرت عیسی بن رغبہ ، حضرت محمد بن نضر مروزی، حضرت کریب، حضرت سوید بن نصر ، حضرت محمود بن غيلان، حضرت محمد بن بشار، حضرت علی بن حجر، حضرت ابوداؤد سلیمان بن اشعث اور امام ابوعبدالله بن اسماعیل بخاری رحمة الله علیہم اجمعین۔
جن مشہورخلائق افراد نے آپ کے دسترخوان علم سے خوشہ چینی کی ان میں سے قابل ذکر شخصیات ہیں۔
حضرت الکریم بن احمد نسائی، حضرت ابوبکر احمد بن محمد بن اسحاق بن انس، حضرت ابوعلی الحسن بن خضر سیوطی، حضرت عسن بن رشیق عسکری،  حضرت حافظ ابو القاسم اندلسی، حضرت علی بن ابوجعفر طحاوی ، حضرت ابوبکر بن حدادفقیه،  حضرت ابوجعفر عقیلی، حضرت ابوعلی بن ہارون، حضرت ابوعلی نیشا پوری اور حضرت ابوالقاسم رحمۃ الله تعالی علیہم وغیرہ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ روز مرہ کے معمولات زندگی میں خوش مزاج تھے۔ اچھا اور قیمتی لباس زیب تن کرتے اور انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ آپ کے عقد میں چارعورتیں تھیں۔
عبادت وریاضت کے بھی دلدادہ تھے۔ صوم داؤدی پرعمل پیرا رہے۔ طبیعت میں استغناء تھا اس لیے عموماً امراء کی مجالس سے احتراز کرتے۔ طبعاً  بڑے فیاض تھے۔ مسلمان قیدیوں کا فدیہ دے کر انہیں آزاد کرانا پسندیدہ معمول تھا۔
 عمر کے آخری حصہ میں شام گئے تو وہاں یہ  محسوس کیا کہ لوگ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه سے تو محبت کرتے ہیں مگر حضرت علی رضی الله عنہ سے عداوت رکھتے ہیں اور بد گوئی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اس لیے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کے لیے آپ نے حضرت علی شیر خدا رضی الله عنہ کے مناقب پرمشتمل "کتاب الخصائص" مناقب مرتضوی تالیف کی۔
اس کتاب کی تالیف کے بعد آپ نے اسے دمشق کی جامع مسجد میں لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ یہ کتاب وہاں کے لوگوں کے نظریات کے خلاف تھی اس لیے وہ لوگ مشتعل ہو گئے اور ایک شخص نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث سنائیں تو آپ نے جواب دیا
"کیا معاویہ اس پر راضی نہیں کہ ان کا معاملہ برابر ہو جائے چہ جائیکہ ان کی فضیلت بیان کی جائے۔"
یہ بات سن کر لوگ آگ بگولہ ہو گئے اور آپ کو زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔ اس واقعہ سے آپ کو شدید ضربیں پہنچیں۔ آپ کے خدام آپ کو سجدہ سے اٹھا کر گھر لے آئے۔ آپ نے انہیں ارشادفرمایا: مجھے ابھی مکہ مکرمہ پہنچادوتا کہ میر اوصال مکہ مکرمہ یا اس کے راستہ میں ہو۔
 وفات کے بارے میں دو قول ہیں:
ایک قول یہ ہے کہ آپ کا وصال مکہ مکرمہ میں ہوا۔
اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ کا وصال راستہ میں رمل (فلسطین) میں ہو گیا تھا۔ وہاں سے آپ کی میت مکہ مکرمہ میں پہنچائی گئی اور صفاومروہ کے درمیان آپ کو دفن کیا گیا۔
آپ کی تصانیف میں یہ کتاب نمایاں ہیں۔
السنن الکبری، المجتبیٰ ، کتاب خصائص علی ، مسندعلی ، مسند مالک، مسند منصور ، فضائل صحابہ، کتاب التمییز ، کتاب المدلسین، کتاب الضعفاء، کتاب الاخوة، کتاب الجرح والتعدیل،  مشیخۃ  النسائی،اسماء الرواۃ ، مناسک حج
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بستان  المحدثین میں رقمطراز ہیں کہ ان کی تالیف ”مناسک‘ سے پتا چلتا ہے کہ آپ شافعی مذہب کے پیرو کار تھے۔
علماء نے امام نسائی رحمة الله علی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ تاج الدین سبکی نے امام ذہبی اور اپنے والدتقی الدین سبکی سے یہ بقول نقل کیا ہے کہ امام نسائی، امام مسلم سے بڑے حافظ حدیث تھے۔
امام حاکم نے کہا: میں نے کئی مرتبہ دارقطنی کو کہتے ہوئے سنا جرح و تعدیل میں امام نسائی اپنے زمانہ کے محد ثین کے سرخیل تھے۔
 ابو الحسنین بن مظفر نے کہا: میں نے مصر میں اپنے مشائخ سے سنا وہ امام ابو عبد الرحمن کی امامت اور تقدیم کا اعتراف کرتے تھے۔
دارقطنی نے یہ وضاحت کی کہ ابو کبرحداد جوفقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیرالحد یث تھے۔ امام نسائی کے علاوہ کسی  سے حدیث کی روایت نہ کرتے تھے۔
حافظ ابوعلی نیشا پوری کا قول ہے:”میں نے اپنے وطن اور بیرون وطن صرف چار ائمہ حدیث دیکھے ہیں ۔ نیشاپور میں محمد بن اسحاق اور ابراہیم بن ابی طالب مصر میں نسائی اور اہواز میں عبدان رحمهم الله -
حافظ علی بن عمر کہتے ہیں: امام نسائی علم حدیث میں اپنے تمام ہم عصروں پر فائق تھے۔
حافظ شمس الدین ذہبی کا قول ہے امام نسائی رحمة الله علیہ حدیث ، علل حدیث اور اسماء کے علوم میں امام مسلم، امام ترمذی اور امام ابو داؤد  رحمہم الله سے زیادہ ماہر تھے اور اس میدان میں وہ امام ابوزرعہ اور امام بخاری رحمہم الله سے کی طرح پیچھے نہ تھے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: امام نسائی نقد رجال میں انتہائی محتاط اور تمام معاصرین پر مقدم تھے۔
ماخوذ از تهذیب التہذیب ج 1، از اب حجر عسقلانی۔ تذکرة الحفاظ ج ۲، از امام ابو عبد الله ذہبی۔ بستان المحد ثین از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ۔ تذکرة الحد ثین از علامہ غلام رسول سعیدی۔ ضیاء علم الحدیث از محمد انور مگھالوی۔
تعارفِ سنن نسائی
امام نسائی ابوعبدالرحمن بن شعیب رحمة الله تعالی علیہ جب ”سنن کبری‘‘ کی تالیف سے فارغ ہوئے تو اسے امیر رملہ( فلسطین )کے سامنے پیش کیا۔ اس نے پوچھا کیا اس میں سب احادیث صحیح ہیں؟ امام نے جواب دیا: اس میں صحیح اور حسن دونوں قسم کی احادیث ہیں۔ امیر نے التجا کی کہ میرے لیے ان میں سے صحیح احادیث کو ترتیب دے دیں ۔ تو آپ نے اس کی خواہش پر نیا جمود ترتیب دیا جسے سنن صغری کہتے ہیں اور اسی کا معروف نام سنن نسائی ہے۔ جبکہ امام نسائی نے اس مجموعہ کا جو نام تحریر کیا اس بارے میں دو قول ہیں۔
1.     "المجتبی" منتخب
2.     " المجتنی" چنا ہوا۔
دونوں کامعنی قریب قریب ہے۔ کیونکہ جب پھل پک جائے اس کے توڑنے کو اجتناء کہتے ہیں ۔ اس سے یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ لیکن وہ پھل جس کوتوڑ کر جمع کیا جائے۔
امام نسائی کا سنن نسائی میں اسلوب تالیف:۔
آئمہ لمحدثین نے اپنی کتب کی تالیف میں مختلف انداز اپنائے ہیں۔ امام بخاری رحمة الله علیہ ایک حدیث کومختلف ابواب کے ضمن میں لاتے ہیں۔ قصور استدلال احکام ہوتا ہے۔ امام مسلم رحمة الله علیه ا یک موضوع سے متعلق تمام احادیث کو یکجا کر دیتے ہیں۔ جس کے ذریے متن اور سند میں فرق کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ امام ترمذی روایت ذکر کرنے کے بعد اس روایت کے بارے میں رائے کا اظہارکرتے ہیں۔ سنن نسائی میں تینوں اسلوب ہمیں یکجا ملتے ہیں۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام نسائی کو جہاں استاد کے راویوں کی چھان پرکھ  پر  عبور حاصل ہے وہاں آپ اس روایت کے مختلف طرق پر نگاہ رکھتے ہیں اور اس سے بڑھ کر احکام  کے استنباط کے لیے جو روایت جس باب میں موزوں تھی اس سے وہاں ذکر کر دیتے ہیں تا کی قسم کی دقت نہ رہے۔
امام جلال الدین سیوطی رحمة الله علیہ سنن نسائی کی شرح زہرة الر بی کے مقدمہ میں حافظ ابوالفضل بن طاہر کے حوالہ سے لکھتے ہیں ۔ کہ امام ابوداؤد اور امام نسائی کی روایات تین قسموں میں منقسم ہیں۔
وہ احادیث جنہیں شیخین امام بخاری، امام مسلم کی صحیحین میں نقل کیا گیا ہے۔
وہ صحیح  احادیث جوشیخین کی شروط صحت پر پوری اترتی ہیں مگرشیخین نے انہیں نقل نہیں کیا کیونکہ شیخین نے اپنی کتابوں میں بے شمار ایسی احادیث کو نقل نہیں کیا جو انہیں یادتھیں ۔ تاہم اس قسم کا درجہ پہلی قسم کی صحیح  سے کم ہے۔
احادیث جن کی صحت کا قطعی ہونا ان کے نزدیک ثابت نہیں ان دونوں نے ان کی علت کو بیان کر دیا ہے اہل معرفت سمجھتے ہیں۔
ابن صلاح نے کہا: ابوعبدالله بن مندہ نے بیان کیا کہ انہوں نے محمد بن سعد بارودی کو مصر میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام نسائی کا مذہب ہی تھا کہ وہ ایسے راوی سے حدیث روایت کرلیا کرتے تھے جس کی روایت کو ترک کرنے پر اجماع نہ ہو۔
ابن حجر نے بارودی کے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: اس اجماع سے مرادخاص اجماع ہے کیونکہ علماء جرح و تعدیل کے ہر طبقہ میں متشدد اور متوسط رہے ہیں۔ مثلا پہلے طبقہ میں حضرت شعبہ اور حضرت سفیان ثوری ہیں۔ ان میں حضرت شعبہ متشدد شمار ہوتے تھے۔ دوسرے طبقہ میں حضرت یحیی قطان اور حضرت عبدالرحمن بن مہدی تھے۔ ان میں حضرت یحیی قطان متشدد شمار ہوتے تھے۔ تیسرے طبقہ میں حضرت یحیی بن معین اور امام احمد بن حنبل تھے ان میں حضرت یحیی بن معین متشدد تھے۔ چوتھے طبقہ میں حضرت ابوحاتم اور امام بخاری تھے۔ جبکہ امام حاتم، امام بخاری سے زیادہ سخت تھے۔ امام نسائی کا کہنا تھا میرے نزدیک کسی راوی کی حدیث اس وقت تک ترک نہیں کی جاتی جبکہ تمام علماء اس کی روایت کے ترک کرنے پر اتفاق نہ  کر لیں۔
جیسے جب حضرت عبدالرحمن بن مہدی کسی راوی کو ثقہ قرار دیں اور حضرت یحیی قطان اسے ضعیف قرار دیں تو امام نسائی اس راوی کی حدیث کو ترک نہ کریں گے۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ حضرت بینی قطان جرح کرنے میں متشدد ہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام نسائی جب اس معاملہ میں نرمی کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ راوی جن سے امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے روایات لی ہیں ان سے امام نسائی نے روایات نہیں لیں بلکہ ایسے شیوخ بھی ہیں جن سے شیخین روایات لیتے ہیں ان سے بھی امام نسائی روایات نہیں لیتے۔
امام سیوطی، سعد بن علی ریحانی کا قول نقل کرتے ہیں۔ جو انہوں نے ابوالفضل بن طاہر سے فرمایا:
 "یا  بني أن لابی عبد الرحمن شیطان الرجال اشد من شرط البخاری و مسلم"
 اے بیٹے! ابو عبد الرحمن نسائی کی راویوں کے بارے میں شرطیں امام بخاری اور امام مسلم کی شرطوں سے سخت تھیں۔
احمد بن محبوب رملی نے کہا: میں نے امام نسائی کو یہ کہتے ہوئے سناجب میں نے سنن کو جمع کرنے کا ارادہ کیا تو میرے دل میں جن بعض شيوخ کے بارے میں کچھ وہم تھا اس بارےمیں مَیں نے الله تعالی سے استخارہ کیا تو مجھ پر ان کی روایات کے ترک کرنے کا اشارہ ہو تو میں نے ان سے روایات کو نہ لیا۔

سنن نسائی جلد اول



سنن نسائی جلد دوم



سنن نسائی جلد سوم






0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔