Tuesday, May 14, 2019

سلسلہ تحفظِ عقیدہ ختم نبوت | Tahaffuz e Khatm-e-Nubuwat




فرمان الٰہی
«مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا»
ترجمہ:  "(مسلمانو!) محمد (ﷺ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی (سلسلہ نبوت ختم کرنیوالے ) ہیں ۔ اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔" (سورۃ احزاب ۳۳، آیت:۴۰)

«وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوْحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ»
ترجمہ:  اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پردحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پرکوئی وحی نہ کی گئی ہو۔“ (سورة انعام 6،  آیت:۹۳)

«اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا»
ترجمہ:  ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
 (سورة مائده ۵ ، آیت :۳)


یہود و نصٰاری کو دوست  بنانے والا انہیں میں سے ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ   (پارہ 6،  سورة المائدہ :5، آیت:51 )

ترجمہ:  اے ایمان والو! یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بے شک اللہ بے انصافوں کوراہ نہیں دیتا۔

شان نزول:  جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے فرمایا کہ یہود میں میرے بہت دوست ہیں جو بڑی شان شوکت والے ہیں ، لیکن اب میں ان کی دوستی سے بیزار ہوں الله و رسول کے سوا میرے دل میں کسی کی محبت کی گنجائش نہیں۔

اس پر عبد الله بن ابی نے کہا کہ میں یہود کی دوستی ختم نہیں کرسکتا؛ اس لیے مجھے پیش آنے والے حوادث کا اندیشہ ہے، مجھے ان کے ساتھ رسم و راہ رھی ضرور ہے، تا کہ وقت آنے پر وہ ہماری مدد کریں تو حضور نے عبداللہ بن ابی سے فرمایا کہ یہود کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے، عبادہ کا یہ کام نہیں ۔  اس پر الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہود و نصاری سے محبت و دوستی قائم رکھنا مسلمانوں کی شان نہیں۔  (تفسیر الجلالين حاشية الصاوي ، الجزء الاول، الصفحۃ  271، مکتبه ومطبع مصطفى البابی و اولا دہ  مصر)

دعوت غور وفکر: افسوس آج بھی لوگ اسی عبد اللہ بن ابی کی طرح عذر پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم بے  دینوں، بد مذ ہوں ، گستاخوں ، بے ادبوں سے دوستی محبت نہ رکھیں اور ان سے نفرت کریں تو ہمارے بہت سے کام رک جائیں گے ، مگر یہ عذر ان کے نفس کا دھوکہ ہے۔ خبردار ایسے بہروپیوں سے دور رہیں ۔ یہ د نیا و آخرت میں نقصان کا باعث ہیں۔
سیدنا فاروق اعظم  رضی  اللہ عنہ  نے خوب جواب دیا: امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی  اللہ عنہ نے حضرت موسیٰ اشعری رضی  اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم نے اپنا منشی نصرانی رکھ لیا ہے حالانکہ تم کو اس سے کوئی واسط نہیں ہونا چا ہے ، کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ   (سورة مائده:5 ، آیت :51)
 ترجمہ:  اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ  کو دوست نہ بناؤ ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے  بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
انہوں نے عرض کیا: نصرانی کا دین اس کے ساتھ ہے مجھے تو اس کے لکھنے پڑھنے سے غرض ہے۔ امیر المومنین  رضی  اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے انہیں ذلیل کیا تم انہیں عزت نہ دو، اللہ نے انہیں دور کیا تم انہیں قریب نہ کرو۔
حضرت موسی اشعری رضی  اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بغیر اس کے بصرہ کی حکومت کا کام چلانا دشوار ہے، میں نے مجبور اس کو رکھ لیا ہے؛ کیونکہ اس قابلیت کا آدی مسلمانوں میں نہیں ملتا۔ اس پر امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی  اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر نصرانی مر جائے تو کیا
کرو گے جو انتظام اس وقت کرو گے، وہ اب کرلو اور اس دشمن اسلام سے کام لے کر اس کی عزت ہرگز نہ بڑھاؤ۔
 (تفسیر خزائن العرفان، سورۃ المائدہ  5، تحت الآیۃ 51 )
         اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا، اُن سے مدد چاہنااور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے۔ 
(تفسیر مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ۵۱، ص۲۸۹)
                لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔
( تفسیر مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ۵۱، ص۲۸۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ۵۱، ۱/۵۰۳، ملتقطاً)
فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآىٕرَةٌؕ-فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَؕ)۵۲(
تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر گردش آنے کا ڈر ہے تو قریب ہے کہ اللہ  فتح یا اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے پھر یہ لوگ اس پر پچھتائیں گے جو اپنے دلوں میں چھپاتے تھے۔
{فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے۔} مسلمانوں کو تو فرمادیا گیا کہ یہودونصاریٰ سے دوستی نہ کرو لیکن منافقین کے بارے میں فرما دیا کہ ان کی یہودونصاریٰ سے دوستیاں بڑی مستحکم ہیں کیونکہ یہ دل کے مریض ہیں اور تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے میں دوڑے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی نظر میں اُن سے دوستی کرنے کا فائدہ یہ ہے اور اپنی زبان سے بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی حالات بدل جائیں ، مسلمان مغلوب اور کافر غالب ہوجائیں تو کفار سے دوستی لگانا انہیں اس وقت فائدہ دے گا۔ لیکن یہ سب منافقت کی وجہ سے تھا کیونکہ رسولِ اکرم  اسلام کے غلبے کی جو باتیں فرماتے تھے انہیں اس پر یقین نہیں تھا ورنہ اگر ان باتوں پر یقین ہوتا تو ڈٹ کر اسلام کی حمایت کرتے۔ اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے کہ قریب ہے کہ وہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے اور اپنے رسول، محمد مصطفی  کو کامیاب و کامران فرمائے اور اُن کے دین کو تمام دینوں پر غالب کردے اور مسلمانوں کو اُن کے دشمن یہود و نصاریٰ و غیرہ کفار پر غلبہ دیدے چنانچہ یہ خبر سچ ثابت ہوئی اور اللہ  تعالیٰ کے کرم سے مکہ مکرمہ اور یہودیوں کے علاقے فتح ہوئے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ۵۲، ۱/۵۰۳)
                اس آیت میں پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی تھی کہ اللہ  تعالیٰ فتح لے آئے اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئیاللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے جیسے سرزمینِ حجاز (جس کا موجودہ نام سعودی عرب ہے)  کو یہود یوں سے پاک کرنا اور وہاں اُن کا نام و نشان باقی نہ رکھنا یا منافقین کے راز کھول کر انہیں رسوا کرنا۔
 (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ۵۲، ۱/۵۰۳-۵۰۴،  جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ۵۲، ص۱۰۲، ملتقطاً)
   سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشادفرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے خوبصورت گھر بنایا لیکن اس کے ایک کونے کی اینٹ چھوڑ دی اور لوگ اسے گھوم گھوم کر دیکھتے تعجب کرتے
اور کہتے ہیں کہ یہاں پر یہ اینٹ کیوں چھوڑ دی گئی۔ تو میں وہی اینٹ ہوں اور خاتم النبیین ہوں۔
  ( صحيح البخاری: 3535،  صحیح مسلم 22، 2286 )
سید نا ثوبان رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
 إنه سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انه نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی
میری امت میں تیس  کذاب (بڑے جھوٹے) پیدا ہوں گے، ہرایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے،
حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی  نہیں۔
(مسند الامام احمد: ۲۷۸ / ۵ ، سنن ابی داؤد : ۲۰۲، سنن الترمذی: ۲۲۱۹ سنن ابن ماجه: ۳۹۰۲،
 المستدرک للحاکم: 45. 14 ،  وسند صحيح، واصله في مسلم: ۱۹۲، ۲۸۸۹)
 اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے "حسن صحیح"  اور امام حاکم  رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری ومسلم کی شرط
پر "صحیح"  کہا ہے۔ حافظ  ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔
گستاخِ رسول ولد الزنا: اور الله تعالی نے اپنے محبوب ﷺکے متعلق مجنون کہنے والے کا یوں منہ کالا فر مایا۔ سورہ القلم کی ابتدائی آیات مع ترجمہ پیش ہیں :
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ (القلم68، آیت 10-13)
ترجمہ: اور ہر ایسے کی بات نہ سننا  جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل، بہت طعنے دینے والا ، بہت ادھر کی ادھر کی لگاتا پھرنے والا ، بھلائی سے بڑا روکنے والا ،
حد سے بڑھنے  والا ، گنہگار،  درشت خو، اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا۔
شان نزول: ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ نے حضور صلى الله عليه والہ  وسلم کی شان میں گستاخی کی آپ ﷺ کو مجنون کہا، جس سے حضور ﷺ
کو دکھ ہوا تو اللہ پاک  نے چند آیات مبارکہ نازل فرما کر اپنے محبوب کریم ﷺ کو تسلی وتشفی دی اور آیات مذکورہ بالا میں اس گستاخ کے نو عیبوں  کو بیان فرمایا
 حتی کہ یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اس کی اصل ولد الحرام ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا کہ محمد(ﷺ )نے میرے
 متعلق دس باتیں بیان کی ہیں ان میں نو کو تو میں جانتا ہوں ، لیکن دسویں بات یعنی  میری اصل میں خطا ہونا  تجھی کو معلوم ہوگا تو مجھے سچ سچ بتا دے؛
ورنہ میں تیری گردن مار دوں گا۔ اس کی ماں نے جواب دیا کہ ہاں! تیرا باپ نامرد تھا، مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مر جائے گا، تو اس کا مال دوسرے لوگ
 لے جائیں گے تو میں نے ایک چرواہے کو بلا لیا اور تو اسی کے نطفہ سے ہے۔

(تفسیر الجلالين حافية الصاوي ، الجزء الرابع ، الصفحه 221 مکتبہ و مطبع مصطفى البابی واولادہ مصر )

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔