Thursday, June 20, 2019

Sahaba kiram k Bary me Aqaid AhL e Sunnat | صحابہ کرام کے بارے میں اہل سنت کے عقائد



٭ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جس مسلمان نے ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا، اس بزرگ ہستی کو صحابی کہتے ہیں۔  (فتح الباری، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ، ج8، ص3)
٭ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل خیر اور عادل ہیں، ان کا جب
ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔
(شرح عقائد النسفیۃ، ص62، منح الروض الازہر للقاری، افضلۃ الصحابۃ بعد الخلفاء، ص71)




٭ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جس مسلمان نے ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا، اس بزرگ ہستی کو صحابی کہتے ہیں۔  (فتح الباری، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ، ج8، ص3)
٭ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل خیر اور عادل ہیں، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔
(شرح عقائد النسفیۃ، ص62، منح الروض الازہر للقاری، افضلۃ الصحابۃ بعد الخلفاء، ص71)
٭کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض ہے، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سنی کہے، مثلاً حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ماجد حضرت سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ، اسی طرح حضرت سیدنا عمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ و حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم اجمعین حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیدنا سید الشہدا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اخبث الناس خبیث مسیلمہ کذاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے: کہ میں نے خیر الناس و شر الناس کو قتل کیا، ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی گمراہی ہے اور اس کا قائل رافضی، اگرچہ حضرات شیخین (حضرت ابو بکر و عمر) رضی اللہ عنہما کی توہین کے مثل نہیں ہوسکتی، کہ ان کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔
(سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب من سب اصحاب النبی ﷺ ، الحدیث:3888، ج5، ص463 ٭ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ الجزء الخامس، رقم الحدیث:5442، ص454٭٭فتح القدیر، باب الامامۃ، جق، ص304)
کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔
(المرقاۃ، کتاب الفتن، تحت الحدیث:5401، ج9، ص282 ٭ الفتاوی الرضویۃ، ج29، ص357)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام اور سخت حرام ہے، مسلمانوں  کو تو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ سب حضرات آقائے دوعالم ﷺ کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔ (بہار شریعت، حصہ1، ص254)
٭٭٭کیا تمام صحابہ کرام جنتی ہیں؟
جی ہاں! تمام صحابہ کرام جنتی ہیں، وہ جہنم کی بھنک (ہلکی آواز بھی) نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انھیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا، یہ سب مضمون قرآن عظیم کا ارشاد ہے۔ (پارہ17، سورۃ الانبیاء، آیت 101-103)
٭صحابہ کرام علیہم الرضوان کی لغزشوں پر ان کی گرفت کرنا کیسا ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لئے لغزشیں ہوئیں ، مگر ان کی کسی بات پر گرفت اللہ و رسول عزوجل و ﷺ کے خلاف ہے۔ اللہ عزوجل  نے سورہ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں، مومنینِ قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور ان کو ان پر تفضیل دی اور فرما دیا (وکلا وعد اللہ الحسنی) ترجمہ: سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔
ساتھ ہی ارشاد فرما دیا: (واللہ بما تعملون خبیر) ترجمہ: اللہ خوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے ۔ (پ27، سورۃ الحدید، آیت:10)
تو جب ان کے اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرما چکے تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ ان کی کسی بات پر طعن کرے۔۔؟ کیا طعن کرنے والا اللہ پاک سے جدا اپنی مستقل حکومت قاتم کرنا چاہتا ہے؟
(التفسیر الکبیر، ج5، ص242-243 ٭ فتاوی رضویہ، ج29، ص100، 101، 264، 336، 361، 363)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق اہلسنت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں۔ صحیح بخار میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: (دعہ فانہ قد صحب رسول اللہ ﷺ)  وہ  رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں۔ (صحیح بخاری، ج1، ص531، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ اہل حق، اہل خیر اور عادل ہیں۔
٭کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد صحابی ہیں؟
جی ہاں! حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے، ان کے مجتہد ہونے کا بیان صحیح بخاری شریف میں موجود حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کی حدیث پاک میں ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب: ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ، ج2، ص505،حدیث:3765)
٭حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جو اختلاف ہوا، اس بارے اہل سنت کا  نظریہ یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے اور مجتہد سے صواب و خطا دونوں صادر ہوتے ہیں۔ مگر مجتہد کی خطا پر عند اللہ اصلاً مواخذہ نہیں۔ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت سیدنا امیر المؤمنین علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے خلاف خطا اجتہادی تھا اور فیصلہ وہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مولیٰ علی کی ڈگری اور امیرِ معاویہ کی مغفرت رضی اللہ عنہم اجمعین۔
(شرح العقائد النسفیۃ، مبحث  المجتھد قد یخطی، ویصیب، ص175 ٭ منح الروض الازہر للقاری، المجتہد فی العقلبات یخطی، ویصیب، ص133 ٭ البدایۃ والنہایۃ، ج5، ص633)
٭یہ جو بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ جب حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ امیر معاویہ رجی اللہ عنہ کا نام لیا جائے تو رضی اللہ عنہ نہ کہا جائے، محض باطل و بے اصل ہے۔ علمائے کرام نے صحابہ کرام کے اسمائے طیبہ کے ساتھ مطلقاً رضی اللہ عنہ کہنے کا حکم دیا ہے۔ یہ استثنا نئی شریعت گڑھنا ہے۔
(نسیم الریاض، قسم الثانی: فیما یجب علی الانام من حقوقہ ﷺ، ج5، ص93)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔