Wednesday, April 8, 2020

Solved some conflicts about Shab e Barat / شبِ برات سے متعلق کچھ اہم باتیں اور اختلافات کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں





٭ القرآن٭

"بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔"

(سورۃ دخان: آیت:3)

٭تفسیر٭
اس رات سے یا شبِ قدر مراد ہے یا شبِ برات۔ اس شب میں قرآن پاک ایک دفعہ پورا لوحِ محفوظ سع آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا پھر وہاں سے جبرائیل علیہ السلام تئیس (23) سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوئے۔ اس شب کو شبِ مبارکہ اس لئے فرمایا گیا کہ
اس میں قرآن نازل ہوا۔اور ہمیشہ اس شب میں خیر و برکات نازل ہوتی ہیں۔اور دعا قبول ہوتی ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان)
٭ تفسیر ابنِ عباس میں مبارک رات کا لفظ ہے، نام متعین نہیں۔
سورہ دخان کی اسی آیتـ3 کے تحت تفسیرِ در منثور میں تفسیر ابنِ عباس کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ قرآنِ حکیم لیلۃ القدر کو نازل ہوا پھر جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ پر لوگوں کے کلام کے جواب میں آیت در آیت کی صورت میں نازل کرتے۔
امام عبد الرزاق اور ابنِ حمید رحمۃ اللہ علیہم نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ لیلۃ المبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔
٭امام ابنِ حمید  رحمہ اللہ نے ابو جلد رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صحیفہ رمضان کی پہلی رات، انجیل رمضان کی (18) اٹھارہویں شب جب گزر چکی تو نازل ہوا جبکہ قرآنِ حکیم جب رمضان کی (24) چوبیسویں رات گزر چکی تو نازل ہوا۔بعض لوگ شبِ قدر سے لیلۃ القدر مراد ہونے پہ تنقید کرتے ہیں جبکہ صحیح احادیث میں اسکی اپنی جگہ علیحدہ فضیلت ہے۔ پڑھیے:
٭امام ابنِ جرار، ابنِ منذر اور ابنِ حاتم رحمۃ اللہ علیہم نے حضرت محمد بن سوقہ رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نصف شعبان کی رات سال کے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، زندوں کو مردوں میں لکھا جاتا ہے، حاجیوں کو لکھا جاتا ہے۔ ان میں سے نہ کسی لفظ کا اضافہ کیا جاتا ہے اور نہ کمی کی جاتی ہے۔
(تفسیرِ طبری، سورہ دخان، آیت 3، جلد 25، صفحہ، 129، حیاتۃ صراط العربی بیروت)
٭امام ابو زنجویہ اور دیلمی رحمۃ اللہ علیہما حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، وہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک آدمی نکاح کرتا ہے اور انکا بچہ ہوتا ہے جبکہ اسکا نام مردوں میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔
امام ابنِ ابی شیبہ، عطا بن یسار رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے کہ شعبان سے بڑھ کر کسی مہینے میں (اتنے)زیادہ روزے نہیں رکھا کرتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ سال بھر میں جنہیں موت آنی ہوتی ہے، انکی موت اس رات لکھ دی جاتی ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصیام، ج2، ص346، رقم الحدیث:9764، ناشر: مکتبہ زمان مدینہ منورہ)
٭امام ابی یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے، میں نے اس بارے میں پوچھا تو فرمایا:
اللہ عزوجل اسی رات سال بھر تمام مرنے والوں کے نام لکھتا ہے۔ میں پسند کرتا ہوں کہ جب مجھے موت آئے تو میں روزے سے ہوں۔
(مسند ابی یعلیٰ، ج4، ص277، رقم الحدیث: 4890،ناشر: دار الکتب العلمیہ بیروت)
٭ابنِ ماجہ نے سنن میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہما نے شعب الایمان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب نصف شعبان کی رات ہو تو اس رات میں اللہ کی عبادت کیا کرو اور دن کے وقت روزے رکھا کرو، کیونکہ اللہ پاک سورج  کے غروب ہونے کے ساتھ ہی آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے ، اور اللہ پاک فرماتا ہے:
کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی بخششن کروں،  کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اس کو رزق دوں، کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اس کی خلاصی کروں، کیا کوئی ہے؟ کیا کوئی ہے؟ یہاں تک کے فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
(سنن ابن ماجہ معہ شرح، باب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیہا، ج2، ص175، رقم الحدیث: 1388، دار الکتب العلمیہ بیروت)
دیکھو شبِ برات میں عبادت کرنا تو سنت ہے۔ سبحان اللہ
یہ تو حکم ہے حضور کا حدیث فی  ابن ابی شیبہ، ترمذی،  ابن ماجہ
(مثال کے طور پہ سند ضعیف بھی ہو تو اسناد بڑھنے سے صحیح کا درجہ پا جاتی ہے یہ حدیث جیسا کہ احادیثِ مبارکہ کا اصول ہے۔)
رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا:
اے عائشہ رضی اللہ عنہا!کیا تو اس بات سے خوف زدہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تجھ پہ ظلم کرے گے
(زیادہ ازواج تھی، دن مخصوص تھا، اس دن آپ رضی اللہ عنہا کا دن تھا، سب کو حسرت ہوتی)
میں نے عرض کی مجھے اس بات کا خوف نہیں تھا لیکن مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کے پاس تشرف لے گئے ہوں گے۔
فرمایا: اللہ پاک نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پہ نزولِ اجلال فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں  سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔

نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے ایک رات نبی اکرم ﷺ کو نہ پایا، میں آپ کو تلاش کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ جنت البقیع میں ہیں، اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا ہوا ہے۔
(سنن ابنِ ماجہ والسنۃ فیہ، ج2، ص175، رقم الحدیث:1389، دار الکتب العلمیہ بیروت)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔